Saturday, September 28, 2013

                           
                                                                          لنک

Tuesday, September 3, 2013


 ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادريس رحمہ اللہ
تجزيہ وتعارف
يہ عربي زبان کاايک کثيرالاستعمال لفظ ہے۔ لفظ ..سلف..
قرآن کريم ميں  صرف ايک جگہ استعمال ہواہے:
.. فجعلناھم سلفا ومثلاً للآخرين ..<سورہ زخرف:26> ..
ہم نے انہيں بعد ميں  آنے والوں  کے ليے پيش رواورنمونہ عبرت بناديا۔..
..مذہب سلف.. سے مراد وہ طريقہ ہے جس پرصحابہ کرام ، تابعين عظام، اتباع تابعين اوربعد ميں  آنے والے وہ ائمہ دين گامزن تھے جن کا تدين اعليٰ درجہ کوپہنچاہواتھا، اورجن کي امامت امت کے نزديک مسلم ہے، اورجن کے اقوال وافعال لوگوں  کے نزديک مقبول ہيں ۔ ان لوگوں  کا راستہ نہيں  جوبدعت کے کاموں  ميں  ملوث ہيں  اورلوگوں  کے نزديک ناپسنديدہ القاب سے ياد کيے جاتے ہيں ، جيسے خوارج، روافض ، قدريہ، مرجيہ ، جبريہ ، جہميہ اورمعتزلہ وغيرہ۔ <قواعد المنہج السلفي ص:253> لوامع الانوار <20>
      معلوم ہوا کہ ہر پيش رو ہمارے ليے قابل اقتدا نہيں  ہوسکتا۔ بلکہ نمونہ اورقدوہ وہي سلف صالح ہوسکتے ہيں  جو مذکورہ اوصاف کے حامل ہوں گے ، يعني صحابہ کرام، تابعين عظام، اوراتباع تابعين جنہوں  نے ايسے مبارک عہد ميں  زندگي گزاري جس کي فضيلت اوربرتري کي شہادت خود رسول اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے دي ہے۔ اورساتھ ہي ان ائمہ دين کوبھي قدوہ اورنمونہ کي حيثيت حاصل ہے جن کاکتاب وسنت سے تعلق لوگوں  کے نزديک معروف اورجن کي امامت وديانت داري امت کے نزديک مسلم ہے۔ جوخود بدعت کے کاموں  سے گريز کرتے اورلوگوں  کوبازرکھنے کي جدوجہد فرماتے تھے۔ اس بناء پر ہروہ شخص جوائمہ مذکورين کے عقائد، فقہ اوراصول کولازمي طورپر اپناتاہے ، اسے ائمہ سلف کي جانب منسوب کياجائے گا ۔ زماني يامکاني اعتبار سے کتني ہي دوري کيوں  نہ پائي جاتي ہو ۔ اورہروہ شخص جو ان کي مخالفت کرتاہے اسے سلف کي جانب نہيں  منسوب کياجائے گا ، خواہ وہ سلف کے درميان ہي موجود رہاہو اورزماني يامکاني اعتبار سے کوئي بُعد اوردوري نہ پائي جاتي ہو۔ <اہل السنہ والجماعہ معالم الانطلاقة الکبريٰ ص:52>
سلف کي اتباع کيسے ہو:
جب ہم ائمۂ سلف کي اقتدا کي بات کرتے ہيں  تواس کامطلب يہ ہوتاہے کہ اپنے آپ کوکسي ايک شخصيت کاپابندبنائے بغيرکتاب وسنت سے جن مسائل واحکام کوسلف نے سمجھااورمستنبط کياہے انہيں  اختيار کرنا۔ عقيدہ وسلوک، عبادات ومعاملات غرضيکہ تمام ديني امور ميں بالخصوص اُن امور ميں  جوبعد ميں  چل کرغير اسلامي تاثيرات کاشکارہوکر مختلف فيہ مسائل بن گئے، ان کے افکار ونظريات، آراء واقوال کونہ صرف تسليم کرنا، بلکہ کتاب وسنت کا فہم حاصل کرنے کے ليے انہيں  مشعل راہ بنانا، عملي زندگي ميں  ان کے طوروطريق کواپنانا اوران کے نقش قدم پرچلنا۔
..سلفي.. نسبت جائز يا ناجائز؟:
اللہ تعاليٰ نے اپنے آخري دين کے ليے ..اسلام .. کا لفظ پسند فرمايا ہے :
.. اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الاسلام دينا..<سورہ مائدہ :3>
..جوآج ميں  نے تمہارے دين کوپوراکرديا، تم پراپنااحسان تمام کرديا،
اوردين اسلام کوتمہارے ليے پسند کيا۔.. اوراسلام کے ماننے والوں  کو..مسلمين .. کے نام سے ياد کياہے:
..ملة أبيکم ابراہيم ھو سماکم المسلمين من قبل وفي ھذا .. (سورہ حج:78)
..يہ دين تمہارے باپ ابراہيم کادين ہے اسي نے پہلے سے <قرآن اترنے سے پہلے> تمہارانام مسلمان رکھاہے اوراس <قرآن> ميں بھي۔.. قنبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:اللہ کے رکھے ہوئے ناموں  ..مسلمين .. ..مومنين.. عباد اللہ.. کے ذريعہ آپس ميں  ايک دوسرے کوپکارو۔..
(ترمذي:کتاب الامثال:5148، حديث نمبر:2863، 2864 ، مسند ابي يعلي:3140õ142، حديث نمبر:1571)
    جب اللہ رب العزت نے امت محمديہ کے ليے ..اسلام.. اور..مسلم.. <مسلمان> کالقب منتخب کيا اورپسند فرماياہے ، توپھراس لقب کے بعد مزيد کسي دوسرے لقب کي ضرورت کيسے اورکيوں  پيش آئي؟اسے سمجھنے کے ليے ہميں  پيچھے لوٹ کر فتنۂ کبريٰ خليفہ راشد سوم حضرت عثمان ذي النورين رضي اللہ عنہ کي شہادت اوراس پرمرتب ہونے والے اثرات پرغور کرنا ہوگا۔
حضرت عثمان کي مظلومانہ شہادت کے بعد امتِ مسلمہ مختلف جماعتوں  اورکيمپوں  ميں  منقسم ہوگئي ۔ شروع ميں  يہ اختلافات سياسي نوعيت کے تھے، جوبعد ميں  چل کرديني شکل اختيار کرگئے، اوراسي کے بعد سے نئي نئي جماعتوں  اورفرقوں  کاظہور ہونے لگا۔ ہرجماعت اورہر فرقہ اپنے آپ کو اسلام کاعلمبردار کہتااوراسلام سے وابستگي کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کوحق پرثابت کرتا۔ لہٰذا علمائے کرام نے باطل فرقوں  اورراہِ حق سے برگشتہ جماعتوں  سے اہل حق کوممتاز کرنے کے ليے .. اہل السنة والجماعة.. کي اصطلاح ايجاد کي۔ اس اصطلاح سے خوارج، اہل تشيع، روافض اورمعتزلہ وغيرہ سے تميز مقصود تھي۔ اس اصطلاح سے تمام علمائے حق راضي اورمتفق تھے۔ ليکن پھر ..اہل السنہ والجماعة.. کے درميان بھي اختلاف رونما ہوئے۔ فلسفہ اورعلم الکلام سے اشتغال رکھنے کي وجہ سے مختلف مکاتب فکر اورجماعتيں  ظہور پذيرہوئيں ۔ جنہوں نے اپنے ليے الگ الگ اصول وضابطے متعين کرليے، اور..اہل السنہ والجماعة.. سے وابستگي ظاہر کرتے ہوئے ہرايک نے اپنے آپ کو کتاب وسنت کا حامل وعلمبردار قرارديا۔ ان حالات ميں  اُن تمام باطل اورمنحرف جماعتوں  اورمکاتب فکر سے امتياز کے ليے اہلِ حق نے لفظ ..سلف.. کاانتخاب کرتے ہوئے اس کي طرف اپني نسبت کي۔ مطلب يہ کہ جس طرح ..اہل السنہ والجماعة.. کي اصطلاح ايک ضرورت کے تحت ايجاد کي گئي تھي، اسي طرح ..سلف .. اور..سلفي .. کي اصطلاح بھي ايک ضرورت کے تحت ايجاد کي گئي ہے۔
اگر ہم اس حقيقت کوتسليم کرتے ہيں  کہ سلفيت ياسلفي دعوت کامفہوم خالص اسلام اورسنتِ نبوي کي دعوت ہے، اس اسلام کي طرف لوٹنے کي دعوت ہے جواسلام نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم اس دنيا ميں  لے کرآئے تھے اورجس کوصحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے آپ سے حاصل کياتھا۔ اگرسلفيت کايہي مفہوم ہے۔ اورحقيقتاً يہي ہے بھيàتوسلفي دعوت حق ہے اوراس کي طرف نسبت کرنابھي حق ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ ..سلفي .. نسبت اختيار کرنے ميں  شرعي اعتبار سے کوئي قباحت نہيں ۔ ايسے شخص کے بارے ميں  جويہ کہتاہے : ..ميں  مذہب سلف.. پرہوں ، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ فرماتے ہيں : ت..ايسے شخص کومطعون نہيں  کياجائے گا جومذہب سلف کے التزام کوظاہر کرتاہے اورمذہب سلف کي طرف اپناانتساب کرتاہے ۔ اوراتفاق رائے سے اس کي بات کوقبول کياجائے گا، کيونکہ سلفي مذہب حق ہے۔..
علامہ ذہبي نے بھي شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے: .. ولقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية، واحتج لھا ببراھين ومقدمات لم يسبق اليھا.. ..ابن تيميہ رحمہ اللہ نے سنتِ محضہ اورسلفي طريقہ کي حمايت کي، اوراس کے ليے ايسے دلائل اورمقدمات سے احتجاج کيا جوان سے پہلے کسي سے بھي بن نہ پڑے تھے۔.. <مقالات دائود غزنوي ، ص:255، 231>
ابن خلدون نے بھي قديم علمائے متقدمين کے ليے ..العقائد السلفية.. کالفظ کئي جگہ استعمال کياہے۔ <مقدمہ ابن خلدون ، ص:496> شيخ عبدالرحمن بن يحييٰ معلمي <1386ھ > نے بھي اپني کتاب .. القائد الي تصحيح العقائد.. <ص:47، 51، 55،119>ميں  ، محدث عصر علامہ ناصرالدين الباني رحمہ اللہ نے ..مختصر العلو.. <ص:122> اور ..التوسل.. <ص:156> ميں  اورشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ نے ..تنبيہات ہامة علي ماکتبہ محمد علي الصابوني في صفات اللّٰہ عزّوجل.. <ص:34، 35> ميں ، اسي طرح اورديگر اہل علم وفضل نے منہج سلف اورطريقۂ سلف پرگامزن لوگوں  کے حق ميں  ..سلفي.. يا ..سلفيين..کي اصطلاح استعمال کي ہے۔
سعودي عرب کے ايک عالمِ دين ڈاکٹر عبداللہ بن صالح عبيلان اسي موضوع پر ايک سوال کاجواب ديتے ہوئے فرماتے ہيں  :
..اس سلسلے ميں  سب سے پہلي بات جس کاجاننا ضروري ہے وہ يہ ہے کہ ہم القاب کوباعث تقرب الي اللہ نہيں  سمجھتے، ہم ..اہل السنہ والجماعة .. کے لقب کواس ليے اہميت ديتے ہيں  کہ ہمارے سلف صالح نے اس اصطلاح کواہميت دي ہے اورحقيقت ميں  وہي <اہل حق کي> جماعت ہے۔ اس ليے جوانہوں  نے کہا وہي تم بھي کہو۔ جس سے وہ باز رہے، تم بھي باز رہو۔ انہوں  نے اس نام کومستحن قرارديا، اورديکھاکہ يہ نام ان کومبتدعہ اورگمراہ لوگوں  سے الگ کرتاہے ۔ ورنہ حقيقت يہ ہے کہ ہم مسلمان ہيں  اورقرآن ميں  بھي يہي کہاگياہے : .. ھوسماکم المسلمين من قبل وفي ھذا ..
بالکل يہي معاملہ لفظ..سلف.. ..سلفي.. اور..سلفيون.. کابھي ہے۔اگرہم اپنے آپ کو سلفي کہتے ہيں  توبوقت ضرورت دوسروں  سے تميز کے ليے ، جس طرح اللہ رب العزت نے انصار کو ..انصار.. لفظ سے ممتاز کيا اورمہاجرين کو ..مہاجرين.. لفظ سے۔ اوراس تميز پروہ راضي ہوا ۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ انصار اورمہاجردونوں  ايک ہي امت تھے اورسب کے سب مسلمان تھے۔ معلوم ہواکہ اگرہم کوتميز کي ضرورت پيش آئے تو<اپنے آپ کو ..سلفي.. لفظ کے لقب سے> ممتاز کرسکتے ہيں ۔ <مجلہ الفرقان ، الکويت، مجريہ بابت شوال 1417ھ ، شمارہ 83، ص:27>
سلفيت کي ابتداء:
اس لفظ کا استعمال بطور اصطلاح ، ..اہل السنة والجماعة.. کي طرح نياہے۔ جس ضرورت کے پيش نظر ..اہل السنہ والجماعة.. کي اصطلاح وجود عمل ميں  آئي، اسي ضرورت کے تحت ..سلفيت.. کاوجود بھي ظہور پذيرہوا۔ ليکن يہ اصطلاح کب وجود ميں  آئي؟ اس کي تحديد اورتعيين قدرے مشکل ہے۔ ليکن اتناطے ہے کہ يہ بھي قديم اصطلاح ہے۔ اس کوعصر حاضر کي پيداوار بتلانا، ياشيخ محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کي اصلاحي تحريک سے مربوط کرنا ،يامغربي استعمار سے منسلک کرنا قطعاً غلط ہے۔ يہ ايک قديم اصطلاح ہے اورزمانہ قديم سے اس نام سے ايک جماعت کاوجود رہاہے۔ ے علامہ سمعاني <562ھ> نے اس اصطلاح کاذکر اپني کتاب ..الانساب .. <7273> ميں  کياہے ۔ علامہ ابن اثير<630ھ >نے بھي ..اللباب <2126> ميں  لکھاہے کہ ..اس نسبت سے ايک جماعت معروف ہے۔يہ تواپني جگہ طے ہے کہ کم سے کم علامہ سمعاني کے زمانہ 562ھ ميں  يااس سے پہلے سلفيوں  کي جماعت موجود تھي۔ کچھ لوگوں  کايہ کہنا ہے کہ سعودي عرب اورديگر خليجي ممالک سے دولت کے حصول کي غرض سے ہندوستان کے اہل حديثوں  نے بھي سلفيت کا لبادہ کرنے کے بہت پہلے سے اورجبکہ پٹرول ڈالر کي چمک دمک ابھي پردۂ خفا ميں  تھي، يہ لفظ مستعمل ہوچکاتھا۔ مولاناعبدالعزيز رحيم آبادي رحمہ اللہ نے 1336ھ مطابق 1918ء ميں دربھنگہ ميں  ..مدرسہ سلفيہ.. کے نام سے ايک مدرسہ قائم کيا۔ پھرجب ..مدرسہ احمديہ.. آرہ مولانا عبداللہ غازي پوريç کے دہلي چلے جانے کے بعد بے رونق ہوگيا، توعظيم آبادي نے اسے دربھنگہ منتقل کرکے مدرسہ سلفيہ ميں  ضم کرديا اوراس کانام ..دارالعلوم احمديہ سلفيہ.. دربھنگہ رکھا۔ ..سلفيہ.. کے اضافے کاسبب احمديوں  <مرزائيوں > سے اشتباہ کودور کرناتھا۔<تحريک اہل حديث تاريخ کے آئينے ميں  ، ص:492> ي اسي طرح دربھنگہ ميں  ہي ڈاکٹر محمدفريدç نے 1933ء ميں  ..مطبع سلفي.. دربھنگہ کے نام سے ايک پريس قائم کياتھا ۔ جس ميں دارالعلوم احمديہ سلفيہ دربھنگہ کاترجمان..ماہنامہ مجلہ سلفيہ.. چھپتاتھا، جواب ..الھدي.. کے نام سے جاري ہے۔
عربي زبان کے نامور اديب مولانا عبدالعزيز ميمنيç <1978ئ> اپني نسبت ..سلفي اثري.. لکھاکرتے تھے، جيساکہ ان کي مختلف تاليفات ميں ديکھاجاسکتاہے۔ ان کي طباعت کي نوبت1342ھ ، 1343 اور1345ھ ميں  آئي، جبکہ مضامين بہت پہلے کے لکھے ہوئے تھے۔ کياان کے بارے ميں  کہاجاسکتاہے کہ انہوں  نے بھي سلفي نسبت کسي مقصد کے حصول کي خاطر اختيار کي تھي؟
شہر بنارس ميں  مقيم رياست ٹونک کے جيد عالم دين ، صاحب علم وفضل مولاناعبدالکريم <1886ء > اپنے ليے ..سلفي .. نسبت اختيار کيے ہوئے تھے۔ موصوف سيد احمد شہيد کے تربيت يافتہ اوراسماعيل شہيد <رحمہم اللہ> کے شاگرد تھے۔ 1886ء ميں  بنارس ميں  وفات پائي۔
مولانا محمداسماعيل رحمہ اللہ گوجرانوالہ <1968ئ> بھي سلفي نسبت کرتے تھے۔
مولاناعبدالحق محدث بنارسي <1286ھ > بھي سلفي نسبت کرتے تھے۔
اللہ تعاليٰ نے امت محمديہ کانام ..مسلمين .. رکھاہے ۔.. ھوسماکم المسلمين.. اس کے باوجود انہيں  مومنين، قانتين، صابرين، عابدين، ساجدين جيسے صفاتي ناموں  سے پکاراہے۔؛ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کے دونام ہيں  محمد اوراحمد۔ پھربھي آپ کو بشير، نذير،سراج منير، وغيرہ صفاتي ناموں  سے ياد کيا۔ بہرحال مختلف اوقات ميں  ياايک ہي وقت ميں  مختلف نام والقاب اختيار کرلينے سے شريعت ميں  کسي قسم کي مخالفت لازم نہيں  آتي۔ يہي حال ..محمدي.. ..اہل الحديث.. اور..اہل الاثر.. جيسے القاب کابھي ہے۔
 مقالہ نگار: أبو الفوزان کفایت اللہ السنابلی
اس سوال کے جواب میں بہت سارے لوگ غلط رخ پر تحقیق کرنے لگتے ہیں ، اور نام ’’اہل حدیث‌‘‘ کے پیچھے پڑجاتے ہیں‌ کہ یہ نام کب سے استعمال ہورہا ہے !!!
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی چیز کے وجودکی تاریخ معلوم کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی چیز کی تاریخ اس کے نام کے ذریعہ معلوم کی جاتی ہے یا اس کی خوبیوں واوصاف اورمادے کے ذریعہ ؟
سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے وجود کی تاریخ معلوم کرنا ہو تو صر ف اس کے نام سے یہ چیز ہرگزمعلوم نہیں کی جاسکتی ، بلکہ ہمیں اس کے اوصاف اورخوبیوں اورمادوں کو دیکھ کر ہی پتہ لگانا ہوگا کہ اس چیز کا وجود کب سے ہے؟
آئیے اسی بات کوہم چندمثالوں سے سمجھتے ہیں ۔
سرزمین کی مثال :
سرزمین کی مثال لیجئے اگرکوئی پوچھے کہ دنیا میں سرزمین پاکستان کا وجود کب سے ہے ؟ توکیا اس کا جواب یہ ہوگا کہ تقسیم ہندکے بعد؟ کیا تقسیم ہند سے پہلے اس سرزمین کا وجود نہ تھا؟ یقینا اس سرزمین کا وجود تھا لیکن اس کانام پاکستان بعدمیں پڑا اوربعد میں یہ الگ نام پڑجانے سے یہ سرزمین نئی نہیں ہوجائے گی۔
شہرکی مثال:
ہندوستان کا شہر ممبئی پوری دنیا میں مشہور ہے اگرکوئی سوال کرے کہ ہندوستان میں اس کا وجود کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا کہ سترہ اٹھارہ سال سے ؟ کیونکہ اس سے قبل اس کا نام ''بمبئی '' تھا ''ممبئی '' نہیں ، یقینا ''ممبئی '' یہ نیا نام ہے،تو کیا اس شہر کے نام میں تبدیلی آجانے اس شہر کے وجود کی تاریخ بدل جائے گی؟ ہرگز نہیں۔
اشخاص کی مثال:
بہت سارے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں تو مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام بدل دیتے ہیں ، یعنی عبداللہ یا عبدالرحمن وغیرہ نیا نام رکھ لیتے ہیں ، تو کیا اس نئے نام کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش بھی بدل جائے گی؟
ایک نومسلم جس نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام عبداللہ رکھ لیا اگرکسی سے سوال ہوکہ اس دنیا میں وہ کب سے ہے؟ توکیا وہ تاریخ بتلائی جائے گی جب اس نے عبداللہ نام رکھا یا وہ تاریخ جب وہ پیدا ہوا؟
مذہب کی مثال:
اگوکوئی سوال کرے کہ ''کرسچن'' (Christian )مذہب اس دینا میں کب سے ہے توکیا یہ جواب دیا جائے گا ، کہ جب سے اس لفظ کا وجود ہواہے؟ یا یہ کو جب سے عیسی علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے؟ یقینا مذہب عیسائیت کا یہ نام بعد میں اختیار کیا گیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے قبل اس مذہب کا وجود نہ تھا۔
عود الی المقصود:
مسلک کا بھی یہی معاملہ ہے۔
کسی مسلک کے نئے پرانے کا فیصلہ اس کے نام سے ہرگزنہیں ہوگا بلکہ اس کے منہج ،عقائد اوراصولوں سے ہوگا، اگرکوئی گروہ نئے منہج اوراصولوں کا پا پند ہوتو وہ بھلے اپنے لئے کوئی پرانہ نا م منتخب کرلے ایسا کرنے سے اس کا مسلک پرانا نہیں ہوجائے گا، اسی طرح اگرکوئی گروہ قدیم منہج اوراصولوں پرگامزن ہوتو گرچہ وہ اپنے لئے کوئی نیا نام چن لے اس سے اس کا مسلک نیا نہیں ہوجائے گا،اس لئے جب بھی یہ پتہ لگانا ہو کہ کون سامسلک کب سے ہے تو اس کے نام کے پیچھے پڑنے کے بجائے اس کے منہج اوراصول کا پتہ لگائیے کہ ان کا وجود کب سے ہے ،اگرمنہج اوراصول نیا ہے تو مسلک نیا ہے اوراگرمنہج واصول قدیم ہے تو مسلک بھی قدیم ہے۔
جہاں تک نام کا معاملہ ہے تویہ ایک الگ مسئلہ ہے اس پر صر ف اس پہلو سے گفتگو ہوسکتی ہے کہ یہ نام درست ہے یا نہیں ، لیکن یہ چیزقدامت وحداثت کی دلیل کبھی نہیں بن سکتی۔
یعنی اگرنام نیا ہو لیکن عقائدواصول قدیم ہوں تو مسلک قدیم ہی ہوگا، اوراگر نام قدیم ہولیکن عقائدواصول نئے ہوں تو مسلک نیا ہی ہوگا، پرانا نام رکھ لینے سے نہ توکوئی جدید مسلک قدیم ہوجائے گا اورنا ہی نیا نام رکھ لینے سے کوئی قدیم مسلک جدید بن سکتاہے،بہرحال مسلک کے ناموں کا ان کے وجود کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے۔
اب اگر مسلک اہل حدیث کی تاریخ دیکھنی ہو اوریہ معلوم کرناہوکہ یہ مسلک کب سے ہے تو اس مسلک کے عقائد واصول دیکھیں ان کا منہج وطرزاستدلال دیکھیں ، ان کے دینی اعمال کی کیفیت دیکھیں ، ان کی نماز دیکھیں ، ان کا رزہ وحج دیکھیں ان کا ہر دینی عمل دیکھیں ۔
اس کے بعد پھر پتہ لگائیں کہ عہدنبوت میں ان کے عقائدواصول کا وجود تھا یا نہیں؟ عہدنبوت میں ان کے منہج وطرزاستدلال کا وجودتھا یا نہیں، ان کے دینی اعمال، عہدنبوی کے اعمال سے موافقت رکھتے ہیں یا نہیں ، اگرہاں اوربے شک ہاں تو یہ مسلک قدیم ہے ، اس کا وجود عہدنبوی سے ہے والحمدللہ۔
اسی کسوٹی پر ہرمسلک کی تاریخ معلوم کی جانی چاہئے، دیگرجنتے بھی مسالک ہیں خواہ ان کے نام نئے ہوں یاپرانے ،ان کے عقائد واصول اورمنہج دیکھیں گے توعہدنبوی میں ان کا ثبوت قطعانہیں ملے گا، بلکہ یہ خوبی صرف اورصرف مسلک اہل حدیث کی ہے کہ اس کا ہرعقیدہ واصول کا عہدنبوی میں واضح طورپر ملتاہے۔
الغرض یہ کہ مسلک اہل حدیث کوئی نیا مسلک نہیں ہے ، دنیا کا کوئی بھی شخص اسے نیا ثابت نہیں کرسکتا زیادہ سے زیادہ اس بات پرحجت کرسکتاہے کہ یہ نام کب سے چل رہاہے۔
لیکن جیسا کہ عرض کیا گیاکہ اگریہ فرض بھی کرلیں کہ یہ نام عصرحاضر میں اختیا رکیا گیاہے (حالانکہ اس نام کی قدامت پر بے شمارشواہد موجودہیں ) توبھی اس مسلک کو نیا مسلک نہیں باورکرایاجاسکتا، یہ باورکرانے کے لئے ضروری ہوگا کہ اہل حدیث کے منہج اورصحابہ کے منہج میں اختلاف ثابت کردیا جائے، اوریہ ناممکن ہے۔
لہذا مسلک ا ہل حدیث کا وجود تب سے ہے جب سے اس دنیا میں حدیث (فرمان الہی وفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کا وجودہے کیونکہ یہی اہل حدیث کا عقیدہ واصول ہے، والحمدللہ۔